نئی دہلی، 10/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے 8 دسمبر کو مسلمانوں کے حوالے سے قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جسٹس کمار کے دیے گئے قابل اعتراض تبصرہ پر اخبار میں شائع رپورٹ پر نوٹس لیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ سے اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جسٹس شیکھر کمار یادو نے اتوار (8 دسمبر 2024) کو کہا تھا کہ ہندو مسلمانوں سے یہ امید نہیں کرتے ہیں کہ وہ ان کی تہذیب کو مانیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کی تہذیب کی توہین نہ کریں۔ وِشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے منعقد ایک پروگرام میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جسٹس کمار نے کہا کہ ’’تعدد ازواج، تین طلاق یا حلالہ کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے اور یہ رواج اب نہیں چلیں گے۔‘‘
جسٹس شیکھر کمار نے اپنے متنازعہ بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ ملک ہندوستان اکثریتی طبقہ کے مطابق چلے گا۔ یہ قانون ہے۔ میں یہ بات ہائی کورٹ کے جج کے طور پر نہیں بول رہا ہوں۔ آپ اپنے پریوار یا سماج کو ہی لیجیے کہ جو بات زیادہ لوگوں کو منظور ہوتی ہے اسے ہی قبول کیا جاتا ہے۔‘‘ جسٹس کمار نے اپنے بیان میں ’کٹھ ملا‘ لفظ کا بھی استعمال کیا تھا۔ کمار کے مطابق ’یہ جو کٹھ ملا ہیں‘ یہ لفظ صحیح نہیں ہے لیکن کہنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں ہے کیونکہ یہ ملک کے لیے بُرے ہیں۔ ملک کے لیے خطرناک ہیں، ملک کے خلاف ہیں۔ عوام کو اکسانے والے لوگ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک آگے نہ بڑھے۔ ان سے حتی الامکان محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تہذیب میں بچے ’ویدک منتر‘ اور عدم تشدد سیکھتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ مختلف تہذیب میں بچے جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سے ہمدردی اور برداشت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔
پروگرام میں شریک ہوئے کچھ لوگوں نے جسٹس کمار کے قابل اعتراض تبصروں کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کر دی۔ وائرل ویڈیو میں واضح طور پر یہ کہتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے کہ ’’ہندو ہونے کے ناطے وہ اپنے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دیگر مذاہب کے تئیں کوئی بغض رکھتے ہیں۔‘‘ جسٹس کمار نے مزید کہا کہ ’’ہم آپ سے شادی کرتے وقت 7 پھیرے لینے کی امید نہیں کرتے ہیں... ہم نہیں چاہتے ہیں کہ آپ گنگا میں ڈُبکی لگائیں لیکن ہم آپ سے یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ آپ ملک کی تہذیب، دیوتاؤں اور عظیم لیڈران کی توہین نہیں کریں گے۔‘‘